Quran Interactive Recitations - Click below

Wednesday, February 17, 2010

� Ali Valiyollah Group � ::IRAN, Referendum & Future (Urdu)::

 

ایران میں عوامی ریفرنڈم اور اسکے اثرات

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سامراجی طاقتوں کے لئے ایک زلزلے اور دھماکے سے کم نہ تھی ان طاقتوں کی طاقتور اور پورے ایران میں پھیلی ہوئی خفیہ ایجنسیاں آخر تک یہی سمجھتی رہیں کہ یہ چند ملاؤں کی جذباتی تحریک ہے،جو بہت جلد پانی پر ابھرنے والی جھاگ کی طرح ختم ہو جائے گی۔امریکی ادارے سی آئی اے کا سربراہ امام خمینی (رح) کے ایران پہنچنے کے بعد بھی اس وقت کے صدر جمی کارٹر کو یہی کہتا رہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں۔جب انقلاب کامیاب ہوا تو اس کو اپنے غلط اندازوں اور نااہلی کی وجہ سے اپنے عہدے سے مجبورا" استعفی دینا پڑا۔ امریکہ اور دیگر ادارے نہ اس وقت ایرانی عوام،ایرانی کلچر اور مذہبی جذبات کو سمجھ سکے تھے اور نہ اب سمجھ رہے ہیں۔
انقلاب کی کامیابی کے تین کامیاب عشروں کے باوجود امریکہ ابھی تک انقلاب سے پہلی والی فضا میں ہے وہ اب بھی اپنی طاقت،وسیع انٹیلی جنس نیٹ ورک،عالمی ذرائع ابلاغ اور فری میسن جیسے اداروں کے نفوذ کی بدولت یہی سمجھتا ہے کہ وہ جب چاہئے کسی ملک میں اپنی مرضی کی تبدیلی لاسکتا ہے ایران کے حوالے سے اس نے کئی تجربات کئے لیکن ناکامی کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی،اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں،ایران کو عالمی سیاسی میں تنہا کیا گيا،داخلی ایجنٹوں کے ذریعے نظام تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی۔ایٹمی پروگرام،دہشت گردی کی حمایت اور اسطرح کے لاتعداد الزامات عائد کر کے اقتصادی اور فوجی محاصرہ کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن نتیجہ ناکامی اور مایوسی کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوا۔امریکی سینٹ میں ایرانی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کھلم کھلا بجٹ منظور کئے گئے،ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کا رخ ایران کی طرف کیا گیا اور انہیں کھلی چھٹی دی گئی کہ جس طرح چاہو ایران کے اسلامی انقلاب کو بدنام کرو۔ایران کی جمہوریت کو قبول نہ کیا گیا،ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنایا گیا،ایران میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے اقدامات کو جان بوجھ کر چھپایا گیا ان سب اقدامات کا واحد ہدف اسلامی نظام کو ناکام اور ایرانی قیادت کو اپنی سامراج دشمن پالیسیوں سے باز رکھنا تھا۔امام خمینی (رح) اور اس کے بعد آپ کے جانشین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تمام تر اندرونی اور بیرونی دباؤ کے باوجود انقلاب کے اہداف اور امنگوں کے حصول کے لئے اپنے سفر کو جاری رکھا۔
ایران میں محمد خاتمی کی صدارت کے ذریعے اصلاحات کے نام پر امریکی حمایت سے ایران کے اسلامی نظام کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن ایرانی عوام کی آگاہی اور ولی فقیہ کی بصیرت نے نظام کو مکمل طور پر پٹری سے اترنے نہیں دیا۔ایران میں جب دسویں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تو انقلاب مخالف عناصر کو ایران کے ایک سابق وزير اعظم میر حسین موسوی کی صورت میں ایک ایسا امیدوار ملا۔جس نے ان کی امیدوں کو زندہ اور پژمردہ چہروں کو شاداب کر دیا۔انتخابات کے دوران تمام انقلاب مخاف قوتیں اور کچھ سادہ لوح انقلابی موسوی کے گرد جمع ہو گئے تاہم تہران کے علاوہ ایران کے کسی بھی شہر میں موسوی گروپ اپنا رنگ نہ جما سکا اور بہت سے عالمی سروے کی رپورٹوں کے عین مطابق ڈاکٹر احمدی نژاد واضح برتری کے ساتھ صدارتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ایران کی داخلی اور خارجی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزيہ کاروں کے مطابق انقلاب مخالف گروپ نے اس مرتبہ انقلاب کی بنیاد اور ولایت فقیہ کو ہدف بنانے کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا اور اس منصوبے پر عمل درآمد انتخابات میں شکست اور فتح دونوں صورت میں ہونا تھا۔انتخابات میں دھاندلی کے نام پر شورش شروع کی گئی اور اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لایا گیا۔تہران میں بڑے بڑے مظاہرے کئے گئے اور توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی اور ان اجتماعات میں ایسے نعرے لگائے گئے جو مدتوں سے امریکی اور برطانوی سامراج کے ہونٹوں پر تھے۔
گزشتہ جون سے لیکر انقلاب کی اکتیسویں سالگرہ 11 فروری تک اس گروپ نے مختلف طریقوں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔لیکن عوام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور انقلاب مخالف عناصر کی حقیقت آشکار ہونے کے بعد مرحلہ بہ مرحلہ ان سے جدا ہونے لگے اور نئے عیسوی سال کے آغاز تک اس گروپ کے قائدین کی صورتحال خزان رسیدہ درختوں کی طرح ہو گي جن سے پتے جھڑ گئے اور وہ تن و تنہا رہ گئے اس دوران عالمی ذرائع ابلاغ،ایران میں موجود مغربی سفارتخانوں اور امریکی برطانوی،فرانیسوی اور دیگر مغربی ممالک کے حکام نے شرپسندوں کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا،لیکن ان کی حمایت فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنی۔
ایران کے ذرائع ابلاغ،قائدین،نوجوان طبقے اور بالخصوص قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کی بصیرت و آگاہی کے لئے مختلف اقدامات انجام دیئے۔قائد انقلاب اسلامی نے اپنے بصیرت افروز خطبات کے ذریعے ایرانی عوام کے شعور اور بصیرت کو بیدار کیا اور ایرانی عوام نے تیس دسمبر کو تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر آکر شرپسندوں اور بیرونی طاقتوں سے وابستہ افراد کو سختی سے مسترد کرنے کا اعلان کیا۔عوام کی اتنی واضح اکثریت کے اس فیصلے کے باوجود مغربی ذرائع ابلاغ اور مغربی حکام ایرانی عوام کے پیغام کو نہ سمجھ سکے اور انہوں نے شرپسندوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا اور انقلاب کی اکتیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنی طاقت کے اظہار کا اعلان کیا۔لیکن 11 فروری کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شرپسندوں اور انکے مذموم ارادوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ایرانی عوام نے ان اجتماعات میں وسیع اور تاریخی شرکت سے ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالفوں کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ ایرانی عوام کل بھی انقلاب کے ساتھ تھی آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہے گی۔تیس دسمبر کی طرح گیارہ فروری کو بھی عوام نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ انقلاب کی اکتیسویں سالگرہ میں عوام کی اس شرکت کو الفاظ،اعداد و شمار اور تصاویر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک صحافی کے بقول ان اجتماعات کو لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں بلکہ کلومیٹروں میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ فلاں اجتماع دس کلومیٹر تھا اور فلاں پندرہ کلومیٹر لمبا۔
تہران جسے شرپسندوں کا مرکز قرار دیا جا رہا تھا وہاں عوام نے جو بے مثال شرکت کی یقینا" ان دعوؤں کا واضح جواب ہے جو مغربی ذرائع ابلاغ گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل کر رہے تھے۔ایرانی عوام کے ان تاریخی اجتماعات کے اثرات اور انکے پیغامات کو داخلی اور خارجی دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
عوام نے اپنے عظیم الشان اجتماعات سے بیرونی قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایران اپنے انقلاب،قیادت،نظام ولایت فقیہ اور قومی مفادات سے اسی طرح عشق و عقیدت رکھتا ہے جو انقلاب کے آغاز کے وقت رکھتا تھا۔عوام نے اتنی بڑی تعداد میں جہاں تمام حکومتی اقدامات پر تصدیق کی مہر ثبت کی ہے وہاں ایٹمی پروگرام اور سامراج مخالف خارج پالیسی کی بھی توثیق کی ہے ایرانی عوام کی تاریخی شرکت نے اقوام متحدہ،انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور ایٹمی توانائي کے عالمی ادارے آئي اے ای اے کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ زور،دھونس دھمکی،پروپیگنڈوں اور دوسرے منفی ہتھکنڈوں سے ایرانی عوام کو انکے جائز حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
ایرانی عوام نے عالمی رائے عامہ کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ایرانی پالیسیوں اور ایران کے حقیقی ترجمان وہ خود ہیں نہ کہ وہ مٹھی بھر عناصر جو امریکی اور برطانوی دسترخوان کی بچی کچھی ہڈياں جوس کر ملک سے باہر بیٹھ کر ایرانی قیادت اور ایران کی اسلامی پالیسیوں پر کیچڑا چھالتے رہتے ہیں۔
ایرانی عوام نے عالمی بالخصوص صیہونی ذرائع ابلاغ کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اسلامی نظام،ولایت فقیہ اور ایرانی پالیسیوں پر جتنی تنقید کریں اور شرپسندوں کو جتنا بڑھا چڑھا کر بیان کریں اس کا ایرانی عوام پر کوئی اثر نہیں ہو گا اور انکے زہریلے پروپيگنڈے اور بے بنیاد الزامات انکی اپنی ساکھ خراب کرنے کا باعث بنیں گے۔ایرانی عوام نے شرپسندوں کی حمایت میں میڈیا مہم چلانے والے غیر ملکی اور فارسی زبان میں نشر ہونے والے انقلاب مخالف چینلوں کو خبردار کیا ہے کہ تمہاری تمام تر کوششوں کے باوجود ایرانی عوام نے مظاہروں میں شرکت کر کے تمہاری تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے اور مستقبل میں بھی تمہارے پروپيگنڈوں کے دھوکے میں نہیں آئے گی۔انقلاب کی اکتیسویں سالگرہ کے میلین مارچ میں شریک عوام نے ایران میں موجود مٹھی بھر انقلاب مخالف شرپسندوں اور انتخابات کے بہانے فتنہ و فساد برپا کرنے والے لیڈروں کو بھی پیغام دیا ہے کہ ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے اور مستقبل میں اگر انہوں نے اپنی روش کو نہ بدلہ تو ان کا مستقبل بھی بنی صدر،مسعود رجوی اور دیگر منافقین سے مختلف نہیں ہو گا۔







The image
Aey Khuda Dilo Say Yeh Juda Na Ho
Jub Talak Zahoor-e-Haq Na Ho

__._,_.___
الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایه امیرالمومنین و الائمه المعصومین علیهم السلام

http://groups.yahoo.com/group/Ali_valiyollah

به دوستداران اميرالمومنين علي (ع) بشارت رستگاري باد.از شما بزرگواران دعوت مي شود تحقيقات و مطالب و آيات و روايات پيرامون ايشان و سلاله پاكش را براي اين گروه ارسال دارند تا شيعيان ايشان از آن بهره مند گردند . از آنجا كه گروه آزاد است خواهشمند است در ارسال مطالب دقت فرماييد
     التماس دعا
دوستداران اهل بيت عصمت و طهارت
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment

Blog Archive